حوزہ نیوز ایجنسی। آخرالزمان میں افراتفری، ظلم و جبر، ہوا و ہوس اور مادی و شیطانی مقاصد کی کثرت کی وجہ سے تمام ثقافتی سرگرمیاں، تعلیم و تربیت، اخلاقیات اور انسانیت کے لئے مفید علم کو بالکل ختم یا پھر منحرف کر دیا جائے گا۔ اہل علم اور دانشور حضرات کہ جو اس دور میں لوگوں کی رہنمائی کے ذمہ دار ہیں یا تو انہیں فیزیکلی طور پر معاشرے سے مٹا دیا جائے گا یا پھر معاشرے کے سیاق و سباق سے ہٹا دیا جائے گا اور وہ گمراہ لوگوں کے ہاتھوں ایک سائیڈ پر لگا دئے جائیں گے اور اس وقت معاشرے پر مؤثر اثرات نہیں رکھتے ہوں گے۔
ابن عباس نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ (ص) فرماتے تھے: "خدا نے مجھ پر معراج کی رات وحی نازل کی کہ میں نے علی (علیهالسلام) کی صلب سے گیارہ اماموں اور رہنماؤں کا انتخاب کیا ہے۔ یہ سب تمہاری نسل سے اور حضرت فاطمه بتول(سلاماللهعلیها)کی اولاد ہوں گے۔ ان میں سے آخری وہ ہے جس کی امامت میں حضرت عیسی (علیہ السلام)نماز پڑھیں گے اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح یہ ظلم سے بھری ہوئی تھی۔۔۔ میں نے عرض کی: اے پروردگار! یہ وعدہ کب پورا ہوگا؟ خداوند نے کہا: "جب علم و دانش کو زمین سے محو کر دیا جائے گا اور جہالت ظاہر ہوجائے گی۔" [1]
لیکن زمین سے علم و دانش کے خاتمے کا کیا مطلب ہے؟ انسانی معاشرے میں علم و دانش کی تیزی سے ترقی کو دیکھتے ہوئے علم و دانش کو اس سیارے (زمین) سے کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں دو احتمالات ہیں جن پر ہم ذیل میں گفتگو کریں گے۔
پہلا احتمال:
یہ ممکن ہے کہ ظہور سے پہلے کے زمانے میں زمین سے علم و دانش کو ہٹانے کا مطلب انسانی تعقل اور عقلانیت کا خاتمہ ہو۔ کیونکہ احادیث کے ان مجموعوں میں کہ جنہیں مخصوص اور عظیم علمی افراد نے جمع آوری کیا ہے، جہل و عقل کی روایات کو ایک دوسرے کے بالمقابل قرار دیا گیا ہے۔[2]
اسی طرح جب بنی اسرائیل نے گائے کے ذبح کی داستان میں حضرت موسیٰ کا تمسخر کیا تو ملتا ہے کہ «وَ إِذْ قالَ مُوسی لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً قالُوا أَ تَتَّخِذُنا هُزُواً قالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَکُونَ مِنَ الْجاهِلین [بقره/۶۷] اور (اس وقت کو یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو۔ کہنے لگے آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں فرمایا: میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں۔
تو اس بنا پر علم و جہل کے بالمقابل ہونے سے یہ استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ ان روایات میں "علم" سے مراد تعقل اور عقلانیت بشر ہے کہ جسے آخرالزمان میں اٹھا لیا جائے گا۔ یعنی آخرالزمان کے انسانی معاشرہ میںعلماء و دانشور حضرات تو بہت ہوں گے لیکن ان میں عاقل اور خردمند افراد بہت کم ہوں گے۔ چونکہ اس وقت یہ افراد خواہشات اور ہوا و ہوس کی پیروی میں اپنی عقل کو کھو دیں گے جس کے نتیجہ میں دنیا میں انحراف اور فساد کی فضا عام ہو جائے گی اور انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی عقلانیت سے بہت دور ہو جائے گی۔
دوسرا احتمال:
ان روایات میں ایک دوسرا احتمال یہ ہے کہ مفید علم کو زمین سے اٹھا دیا جائے گا۔ کیونکہ آج کے دور میں جتنا انسانی علوم ترقی کر رہے ہیں اتنا ہی انسانیت کی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے اور خطرات نے ہر طرح سے انسانی زندگی کو گھیر رکھا ہے۔
آج کے اس سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے دور میں جتنا ان علوم نے ترقی کی ہے اس کے نتیجہ میں انسانی زندگی کے بڑھتی ہوئے عدم تحفظ کے پیش نظر ایسا لگتا ہے کہ آخر الزمان میں "علم" کے خاتمے کا مطلب بشریت کے لئے مفید علم کا ہونا ہے۔ کیونکہ ان جدید انسانی علوم اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں انسان کووہ دنیاوی اور اخروی سعادت نہیں مل رہی جسے خداوند متعال پسند کرتا ہے۔ حضرت امیرالمؤمنین(علیهالسلام) اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: "علم کا ثمرہ معرفت خداوندی اور اس کی بندگی ہے"۔[3] لیکن بدقسمتی سے آج کی اس علمی اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانوں کو اپنا پابند بنا لیا ہے اور ان کے اندر خوف و وحشت، ان کی آسائش و راحت کو سلب، قدرتی منابع کی بربادی، حکمرانوں کی خواہشات اور ہوا و ہوس کی پیروی وغیرہ کو ایجاد کر دیا ہے کہ جس سے انسانیت مسخ ہو کر رہ گئی ہے اور اس نے انسانوں کو دوسرے حیوانات کے زمرہ میں لا کھڑا کیا ہے۔[4]
آخری بات:
یہی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی ہی اس دور میں ظلم اور فساد کے پھیلاؤ میں ایک اہم عنصر رہی ہے کیونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے مطالعہ کے اہداف سے انحراف اور بعض شرپسند افراد کے ہاتھوں اس کی اجارہ داری نے انسانی معاشرے کی ثقافت اور عقائد کو بھی متاثر کیا ہے۔ حالانکہ انسان دوسرے جانوروں کی طرح نہیں ہے اور اس کی زندگی اس فانی دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا میں جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام انسان کو علم و دانش کی تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے لیکن وہ علم و دانش اسلام کے مدنظر ہے کہ جو مفید ہو اور جس کے ذریعہ انسان تخلیق کی دنیا اور اس کے خالق کی عظمت کے اسرار و حقائق سے آشنا ہوتا ہےاور اس عظیم خالق کی عظمت کو درک کرتا ہے اور اپنے اس علم سے محروم اور مظلوم افراد کی مدد کے لئے استفادہ کرتا ہے۔
مزید مطالعہ کے لئے ان کتب کی طرف مراجعہ کریں:
۱. «مکیال المکارم فی فوائد الدعاء للقائم» مؤلف مرحوم آیتالله سید محمدتقی موسوی اصفهانی۔
۲. «کمال الدین و تمام النعمه» مؤلف شیخ صدوق۔
۳. « مهدویت رویکردها و چالشها» مؤلف مهدی مهریزی۔
منابع:
[1]۔ کمال الدین و تمام النعمه، شیخ صدوق، تصحیح علی اکبر غفاری، انتشارات جامعه مدرسین، ۱۴۰۵ق، ص۲۵۱۔
[2]۔ مزید معلومات کے لیے ملاحظہ کریں: "کتاب عقل و جهل اصول کافی"۔
[3]۔ میزان الحکمہ ، محمدی ری شہری ، دار الحدیث ، قم ، ج 3 ، ص 1886۔
[4]۔ حضرت مهدی (عج) در روایات شیعه و اهل سنت، احمد علی طاهری ورسی، آثار نفیس، ۱۳۹۰، ص۹۷-۹۶۔